اتوار، 8 نومبر، 2015

لکن میٹی


اوس دن ایسراں ہویا کہ سورج سرگی ویلے اُگ پیا۔ نمازیاں دی تہجد تے فجر قضا ہو گئی۔اوہ اک دوجے نوں پچھدے پھرن پئی اسی ہن نماز پڑھ سکنے آں کہ نہیں۔پر۔۔ایس گل دا جواب دین والا کوئی نہیں سی۔
کنک ونّے رنگ دی مٹیار نے مونہہ تے پانی دا چھٹا ماریا تے مدھانی ددھ وچ پا دتی۔ ددھ رڑکدی او سوچن لگ پئی کہ اوہ اج کویلے کیوں اٹھی اے۔ سورج اگن توں پہلاں تے اوہ آنڈھ گوانڈھ نوں لسی دے کے چاٹی وی دھو چھڈ دی سی۔ ۔۔۔پر اج کیہہ ہویا اے۔
 
باہروں آ کے طالبے نے باسی روٹی اچار نال کھادی تے لسی دے چھنّے نوں مونہہ لا کے ڈیکو ڈیک پی گیا۔
 
’’ اج توں چھا ویلا لے کے پیلی وچ نہیں آئی ؟ ‘‘اوہنے چاٹی دھوندی سوانی نوں پچھیا۔ پر اوہ کیہہ دسدی۔ اوہ تے آپ دلیلیں پئی سی۔
 
پنڈ دے بزار اچ دکاناں کھل گیئاں سن پر گاہک نظر نہیں سن آ رہے۔ سرگھی ویلے اگن والا سورج ات دی گرمی سٹ رہیا سی۔ گھراں وچ تے باہر سارے لوک ایس دوزخ نال گھبرائے پئے سن۔
 
’’ یار اج کیہہ ہویا اے۔۔ایڈی گرمی۔۔۔؟ ‘‘ دفترنوں جان والے باوٗ نے اپنی سایئکل اچ ہوا بھردیاں ہویاں نیڑے کھلوتے منشی نوں پُچھیا۔
 
’’ گرمی۔۔۔؟ خدا دا قہر آکھو جی۔۔۔پر باوٗ اے ہویا کسراں ۔۔۔؟ ‘‘منشی نے اچیچا اہونوں سوال کر دتا۔
 
’’ میری گھڑی خبرے بند ہو گئی اے۔۔انج چاپدا اے مینوں دفتروں کویل ہو گئی اے۔۔۔‘‘باوٗ نے آکھیا۔
’’ اج ساریاں گھڑیاں بند ہو گیاں نے۔۔۔لگدا اے ویلا ای کھلو گیا اے۔۔۔‘‘
’’ ویلا۔۔؟ ویلا تے کدی نہیں کھلوتا۔۔۔‘‘
’’ غضب سائیں دا۔۔۔پوہ دا مہینا تے ایڈی اگ۔۔۔‘‘ پیلی نوں پانی لا کے وٹّ تے آ کے بہن والے حمیدے نے متھے توں پسینہ پونجدیاں آکھیا۔
 
’’ پر چاچا۔۔سورج سرگھی ویلے۔۔۔؟ ‘‘
پتر ایہہ میں نہیں جان دا۔۔اسیں اپنے وڈیاں توں ایہہ گل سنی تے اوہناں اپنے وڈیاں توں، پر ساڈھے پنڈ وچ۔۔۔‘‘
’’ شہر والے آکھدے نے سورج راتیں ڈُبّا ای نہیں۔۔۔‘‘ شہروں اون والے چودھری دے منڈے نے آکھیا۔
’’ لو۔۔ہور سن لو۔۔۔اپنا اپنا ٹھکانا کر لوو۔۔۔پتہ نہیں کیہ ہون والا جے۔۔۔‘‘
پر اوہناں نوں کیہ پتہ سی پئی ہونی بیت چکی سی۔
 
ساری دیہاڑی ایہناں وچاراں وچ لنگھ گئی کہ سورج سرگھی ویلے کیوں اُگ پیا تے اگدیاں سار ای سڑدا بلدا دن کیوں چڑھیا۔ دوپہر بھخدیاں بھجدیاں لنگھی۔ بلداں دیاں جوڑیاں، پشو، ڈنگر تے پنڈ دے وسنیک گرمی نال موکھل گھتے پر کسے نوں پتہ نہ لگا کہ انج ہویا کیویں۔۔شہر اچ پڑھن والے سکولئے، دفتراں اچ کم کرن والے باوٗ، وڈے وڈیرے تے سیانے، سارے انج چپ سن جیویں کسے اوہناں کولوں بولن دی طاقت کھو لئی اے۔
 
سورج اگیاں اٹھاراں گھنٹے ہو گئے سن پر اوہ اجے وی ایسراں چمک رہیا سی جیویں دوپہر ہووے۔
سکولیاں دیاں اکھاں اگے اکھر ٹپدے رہے۔ کامیاں دا مڑھکا چوندا رہیا۔ تھکیویں نال اوہناں دے جُسّے پیڑ کرن لگ پئے کہ دیہاڑی ای لمی ہو گئی سی۔ اوہناں دیاں اکھاں نیندر نال بھاریاں سن پر سورج دیاں دراچھیاں رشماں اوہناں دے جُسّیاں توں پار ہو گیاں سن۔
 
نیندر سُولی تے وی آجاندی اے۔۔۔ایہہ صدیاں پرانی بات اج کُوڑ ہو گئی سی۔ ترنجناں وچ کھیہہ اڈ رہی سی۔ کھوہاں تے دیو پھر گئے سن۔ کیکلی پاون والیاں کڑیاں پچھلے اندراں وچ لُکیاں سورج ڈبن دا انتظار کر دیاں رہیاں۔مجھاں نے دھاراں لاہن توں انکار کر دتا۔ کانواں، چڑیاں تے طوطیاں نے چیخ چیخ کے درختاں دے ٹاہن ہلا دتے۔ پانی کتھے بندہ ماریاں نہیں سی پیا لبھدا۔ زمین انج سُک گئی کہ اوہدے اتے چڑیپر پئے گئے۔
اودھر یونیورسٹی دے وڈے ہال وچ منڈیاں نے اک بڈھے پروفیسر نوں گھیر لیا۔۔’’ جناب تسیں ہی کجھ دسّو۔۔‘‘
’’ گل ایہہ وے پئی۔۔۔ایہہ زمین، سورج ، کاینات دے ذرّے نیں۔ صرف ذرے۔۔‘‘
’’ پر جناب۔۔ایہہ گل تے کوپر نیکس نے آکھی سی۔۔۔‘‘
’’ ہاں۔۔۔ہر کوپر نیکس ایہو ای گل آکھے گا، آکھدا رہوے گا۔۔تے لوکی اوہنوں مردود۔۔۔‘‘
منڈیاں نے پروفیسر نوں مونڈھیاں تے چُک لیا۔۔۔تے ۔۔فائر بریگیڈ دیاں گڈیاں ہنیرے دی اوس بُکّل ول ٹر پیاں جتھوں ایہہ سورج۔۔نخشب دے چن ورگا جعلی سورج اُگیا سی۔


پیر، 2 نومبر، 2015

وارفتگئ دل



آج وہ خاص طور سے اپنے پسندیدہ لباس میں ملبوس تھی۔ پہننے سے پہلے اسنے اسے بڑی محنت سے استری کیا تھا اور معمول کے بر عکس کسی پبلک ٹرانسپورٹ کی بجائے ٹیکسی میں سوار ہو کر ڈیوٹی پر پہنچی تھی۔ اسپتال کے داخلی دروازے سے لیکر
ICUمیں اپنے ڈیسک تک، ہر نرس، ہر ڈاکٹر، سٹاف اور مریضوں کے لواحقین اسکا لباس دیکھ کر دل ہی دل میں اور نظروں ہی نظروں میں سے داد دیتے رہے۔ ڈیوٹی کاونٹر پر ساتھی نرسوں اور دیگر عملے نے اسکے لباس کی بھر پور تعریف کی۔ اسنے شولڈر بیگ کندھے سے اتارا اور اپنی کرسی پر لٹکا دیا۔ ڈریسنگ روم میں جا کر اسنے لباس تبدیل کیا۔ ہیڈ نرس کے لئے مخصوص اوورآل اور ٹوپی پہنی اور وارڈ کا چکر لگانے نکل گئی۔ یہ اسکا روز کا معمول تھا۔ اوور آل کے نیچے بھی اسکی خوبصورت شرٹ نظر آ رہی تھی۔ اسکی غیر موجودگی میں اسکا سٹاف اب تک اسکے لباس اور انتخاب کی داد دے رہا تھا اور کلچر کے مطابق ٹیوے لگا رہا تھا کہ آج میڈم نبیلہ کا کوئی خاص دن ہے یا کوئی تقریب۔ 
اسکی ڈیوٹی میں آئی سی یو کے علاوہ ملحقہ گائینی وارڈ بھی تھی۔ اس نے دونوں وارڈز کا چکر لگایا۔مریضوں کا حال دریافت کیا، ادوایات کے چارٹ دیکھے، نرسوں کو ہدایات دیں اور پھر اپنے ڈیسک پر آ کر پیپر ورک میں مصروف ہو گئی۔ نرسنگ کورس کی تکمیل کے بعد محنت اور جانفشانی سے کام کرتے ہوئے تین سال کی قلیل مدت ہی میں اسکو ہیڈ نرس کے عہدے پر ترقی دے دی گئی تھی۔ دلکش نقوش،خوش شکل، ہنس مکھ اور ہمدرد ہونے کی بنا پر وہ اپنے ساتھیوں میں مقبول تھی۔ ان خوبیوں اور عہدے کی وجہ سے کچھ حاسدین بھی تھے لیکن ابھی تک انہوں نے اسے کوئی نقصان نہیں پہنچایا تھا۔
 
نبیلہ کا باپ محکمہ سوشل سیکیورٹی میں ٓفس سپر انٹندنٹ تھا۔ ماں گھریلو عورت اور ایک بھائی میٹرک کا طالب علم تھا۔ یوں یہ ایک اوسط درجے کا گھرانہ تھا۔ بطور نرس اسکی تقرری کے ساتھ ہی گھر میں رشتے کی باتیں بھی شروع ہو گئیں۔ ماں باپ کو بیٹیاں بیاہنے کی نہ صرف فکر ہوتی ہے ، جلدی بھی ہوتی ہے۔ جس بچی کے لاڈ پیار دیکھتے وہ تھکتے نہیں، جوان ہوتے ہی اس سے جان چھڑانے کے جتن کرتے ہیں چاہے بعد میں نتائیج کچھ بھی ہوں۔ لیکن یہ ہمارے معاشرے کا دستور ہے اور نبیلہ کو بھی اس سے فرار نہیں تھا اسلئے اس نے بھی ماں باپ کی اس رشتہ مہم کو اپنا مقدر سمجھ لیا لیکن وہ اسکی خاطر ملازمت کی قربانی نہیں دے سکتی، یہ اسنے بہت وضاحت سے اعلان کر رکھا تھا۔ اتفاق سے ابھی تک جہاں سے بھی رشتے کی بات آئی، نرس کے کام کو کسی نے بھی زیادہ ووٹ نہیں دئے۔ یہ بھی بڑے ستم کی بات ہے کہ اسپتالوں میں مریضوں کی خدمت کرنے والی نرسوں اور سکولوں میں بچوں کو تعلیم اور تہذیب کا درس دینے والی استانیوں کو اس معاشرے کے بیشتر لوگوں نے غیر ضروری، غیر اخلاقی سوچ کی عینک سے ہی دیکھا ہے۔ اس سب کے باوجود نبیلہ کو ملازمت پیاری تھی۔ یہ نہیں کہ وہ بطور کلیثے انسانیت کی خدمت کا بچپن سے شوق رکھتی تھی بلکہ ملازمت کے تین سالوں کے دوران اس نے جسطرح سے لوگوں کے دکھوں اور تکلیفوں کو اتنے
قریب سے دیکھا تھا ، اسنے اسے انکی خدمت کا عادی بنا دیا تھا۔ مریضوں کا حال پوچھنے، انکو تسلی دینے اور انکی ادویات کا خیال رکھنے میں اسے ایک عجیب لذت اور فخر محسوس ہوتا۔ جن مریضوں کو اپنے عارضے کی بنا پر اسپتال میں زیادہ عرصہ رکنا پڑتا وہ تو اسکی غیرحاضری تک کو محسوس کرتے۔
 
دو بجے وہ ڈیوٹی پر آئی تھی اور آٹھ بجے اسنے فارغ ہونا تھا۔ اور ابھی پچیس منٹ باقی تھے۔ وہ اپنا کام تقریبا ختم کر چکی تھی اور بس تھوڑا سا ڈیسک ورک رہ گیا تھا، محض چند ایک اندراج کرنا باقی تھے۔ ۔ڈیسک پر سر نیچا کئے وہ ڈیوٹی کے بعد آزاد سے پہلی ملاقات کا تصور کر رہی تھی۔ آزاد اسکی ایک دیرینہ دوست کا قریبی عزیز تھا۔ ایک آدھ بار پہلے بھی ملاقات ہو چکی تھی لیکن اسے ملاقات نہیں کہا جا سکتا۔ تین چار لوگ اکٹھے  کھانا کھا لیں یا چائے پی لیں تو یہ ملاقات تو نہیں ہوتی۔ آزاد ایک کیمیکل انجنئیر تھا اور جی ٹی روڈ پر مریدکے میں کسی فیکٹری میں ملازم تھا۔ اسکی مالی حالت اچھی تھی البتہ تین بہنوں کی شادیاں کرتے کرتے وہ خود تھوڑا بڑی عمر کا لگنے لگ گیا تھاَ۔ اسکی اطلاع کے مطابق آزاد اسے پسند کرتا تھا اور شادی کے بعد بیوی کی نوکری سے اسے کوئی خاص مسئلہ نہیں تھا۔ دیرینہ دوست کے بے حد اصرار پر آج وہ اس سے ملنے ایم ایم عالم روڈ جا رہی تھی۔ وہ سوچ رہی تھی کہ بات کیسے شروع ہو گی اور وہ کیا بات کرے گی۔ بیٹھی تو وہ اپنے ڈیسک پر ہی تھی لیکن ذہنی طور پر کسی کھابے خانے میں کھانے کے دوران ہونے والی مستقبل کی باتیں سوچ رہی تھی۔ اسکی نظر میں آزاد  بس ایک معقول انسان تھا اور آج کی ملاقات اسکی دیرینہ دوست کے اصرار پر ہو رہی تھی۔
وارڈ نرس فرزانہ، دواوں، ٹیکوں، بلڈ پریشر اور شوگر جانچنے کے آلات ٹرالی پر لادے اپنی چوتھی اور آخری وارڈ میں ایک ایک مریض کے بیڈ پر جا کر کسی کو انجکشن لگا رہی تھی کسی کو دوائی پلا رہی تھی۔ بیڈ نمبر 13 والی آنٹی کسی بہت امیر کبیر گھرانے کی خاتون تھی۔ اسنے پہلے تو اسپتال کا مخصوس لباس پہننے سے انکار کیا پھر  مانی بھی تو اس شرط پر کہ اسپتال کی شرٹ نہیں پہنے گی، یوں اسکا لباس اوراسکی گفتگو  اسکی امارت کے تفاخر کا اشتہار تھے۔ وہ اس بیڈ پر گذشتہ ایک ہفتے سے تھی۔ تھیلیم ٹیسٹ کے بعد ہی ڈاکٹرز  بائی پاس کا کوئی فیصلہ کر سکتے تھے۔ڈاکٹروں کی بہترین خدمت کے باوجود خاتون مطمئن نہیں تھی اور ہر ایک سے یہی گلہ کرتی تھی کہ اتنا پیسہ لگانے کے بعد بھی اگر ڈاکٹر اسکی بیماری پر قابو نہیں پا سکتے تو ایسے نامی گرامی اسپتال کا کیا فائدہ۔ نرس فرزانہ کے ساتھ البتہ اسکا رویہ قدرے بہتر تھا، شائد اسلئے کہ اسکی شکل اس خاتون کی ایک مرحوم بھتیجی سے ملتی تھی اور وہ فرزانہ کو اسکی باتیں بتاتی نہیں تھکتی تھی اور بے چاری  نرس چہرے پر جعلی مسکراہٹ سجائے  سننے ر مجبور ہوتی۔ خاتون تو چاہتی تھی کہ نرس انکی پٹی سے لگی رہے لیکن اسے ابھی دومریض اور دیکھنا تھے۔
بیڈ نمبر 14 کا مریض اس  وارڈ کا سب سے سینئر مریض تھا۔ وہ کوئی ایک ماہ سے یہاں تھا۔ اسکے اعصاب کافی کمزور تھے  لیکن دو ماہ میں ڈاکٹرز کی کوششوں اور مختلف تجربات سے وہ پہلے سے بہت بہتر تھا۔ اس مریض سے فرزانہ کی بہت جان جاتی تھی۔شائد  وہ کبھی میڈیکل کا ناکام طالب علم رہا تھا  یا طب کے کسی شعبے سے وابستہ رہا تھا۔اسے ، دی جانے والی ہر دوا، ہر انجکشن، ہر علاج کے بارے میں  تشویش لاحق رہتی اور وہ ڈکٹرز، نرسز حتی کہ وارڈ بوائے تک سے اپنے علاج کے بارے میں پوچھتا رہتا۔ بلڈ پریشر کتنا ہے، شوگر کتنی ہے، بخار ہے کہ نہیں اور پھر فرزانہ سے اسکا چارٹ بھی مانگ لیتا تاکہ جان سکے کہ نرس غلط تو نہیں بتا رہی۔ فرزانہ  کی کوشش ہوتی کہ وہ جلد از جلد یہاں سے فارغ ہو۔ آج بھی وہ  ٹمریچر نوٹ کر کے مریض کی سنی ان سنی کر کے 15 نمبر بیڈ کی طرف سرک لی۔

۔ پندرہ نمبر بیڈ پر پہنچ کر  بلڈ پریشر چیک کرنے کے لئے  اسنے مریض کو جگانے کے لئے آواز دی لیکن وہ گہری نیند میں تھا۔ فرزانہ نے آہستہ سے اسکا بازو ہلایا لیکن وہ ہلا تک نہیں۔ اسنے فورا اسکی نبض ٹٹولی، نتھنوں کے آگے اپنی انگلیاں رکھیں، اسکے پپوٹوںکو پلٹا کر دیکھا، بے چارہ بوڑھا دنیا کو خیرباد کہہ چکا تھا۔ اس نے سکون سے باقی مریضوں کو دوا وغیرہ دی اور پھر ہیڈ نرس نبیلہ کی میز پر جا کر آہستگی سے بولی
’’میڈم ۔۔بیڈ نمبر
۱۵ کے مریض کا انتقال ہو گیا ہے‘‘۔۔۔
نبیلہ اپنے خیالات اور کچھ دیر بعد ہونے والی ملاقات میں اسقدر گم تھی کہ اس نے شاید یہ بات نہیں سنی۔ فرزانہ نے بات دوہرائی۔ ہیڈ نرس نے جونہی یہ بات سنی اسکے چہرے کا رنگ فق ہو گیا۔ حالانکہ اسپتال کے اس
ICU میں تقریبا ایک موت روزانہ کی اوسط تھی اور وہاں کے ڈاکٹر، نرسیں، سٹاف اور خاکروب تک پر اسکا کچھ اثر نہ ہوتاتھا۔ فرزانہ یہ اطلاع دے کر اپنی کرسی پر جا کر وارڈز کے بارے میں کاغذات میں فل ان دی بلینکس کرنے لگ گئی۔ ہیڈ نرس کے دماغ میں اس اطلاع پر گویا بم کا کوئی گولہ پھٹا۔ اسکی ڈیوٹی ختم ہونے میں صرف دس منٹ باقی تھے اور کسی مریض کی اس ٹائم کے اندر موت کا مطلب تھا کہ ضروری کاروئی کرنے میں مزید آدھ گھنٹے کی تاخیر یا پورا ایک گھنٹہ اوربھی لگ سکتا تھا۔ فرض اور اہم ملاقات دونوں اسکے دماغ میں گتھم گتھا ہو گئے۔ ایک لمحے میں کئی باتیں اسکے دماغ میں آئیں۔ وہ اس نرس سے کہے کہ وہ اس موت کو صرف اپنے تک محدود رکھے، گویا اسنے ابھی دیکھا ہی نہیں اور بات نئی ڈیوٹی والے سٹاف پر چلی جائے گی۔ لیکن وہ ایسا نہیں کر سکتی۔ نرس فرزانہ نئی بھرتی تھی اور اس سے اس قسم کی بات کا رسک نہیں لیا جا سکتا تھا۔ کل کلاں وہ اس بات کا فایدہ اٹھا کر اسے بلیک میل کر سکتی تھی یا کسی فضول سی مطلب براری کے لئے رعایت طلب کر سکتی تھی۔ کوئی بھی ہیڈ نرس نہیں چاہے گی کہ اسکی کوئی ماتحت اسکی کمزوری سے واقف ہو۔ اسے یہ بھی خیال آیا کہ وہ فون کر کے آزاد کو صورتِ حال سے آگاہ کردے کہ وہ کسی اور دن مل سکتے ہیں لیکن شاید اسکے مشاہدے میں یہ بھی تھا کہ پہلی ملاقات اگر postponeہو جائے تو پھر ہوتی ہی جاتی ہے اور اسنے کئی ایسے کام دیکھ رکھے تھے جو پہلے سے طے شدہ وقت پر نہیں ہو پائے تو پھر کبھی نہیں ہوئے۔ اسنے اس خیا ل کو رد کر دیا۔ وہ آج ہر صورت آزاد سے ملنا چاہتی تھی کیونکہ وہ بھی بمشکل تمام اپنے آپ کو فیکٹری کے دھندوں سے آزاد کر کے پہنچنے والا تھا۔ وہ جانتی تھی کہ واقعہ اسکی ڈیوٹی کے دوران ہوا تھا اسلئے اسے ہی اس سے نمٹنا ہو گا۔ اگلی شفٹ کے لوگوں کے آنے میں ابھی کافی وقت تھا اور انہیں آ کر حاضری لگانے، ڈریس اپ ہونے اور چارج لینے میں بہت وقت لگے گا۔ اسے اگلی شفٹ کی ہیڈ نرس سے بات کرنے کا خیال آیا کہ اسکی مدد لے لیکن اسنے تو کبھی کسی سے سیدھے منہ بات ہی نہیں کی تھی۔ انہی خیالات میں کھوئی وہ سوچ رہی تھی کہ آخر اس مسئلے کا حل کیا ہے۔ 
ڈیوٹی ختم ہونے میں اب پانچ منٹ باقی تھے کہ اسے مسئلے کا حل نرسز کاونٹر پر جھکا ہوا نظر آیا۔ بے حد ملنسار، اچھے اخلاق کا مالک ڈاکٹر ارسلان نرم اور دھیمے لہجے میں کسی نرس سے اس مریض کا حال پوچھ رہا تھا جسکو آج صبح ہی اسنے مصنوعی تنفس سے بحال کیا تھا۔ یہی اسکا کام تھا۔ ایسے مریض جن میں زندگی کی رمق ابھی باقی ہوتی اور انکا جسم خود سانس نہ لے پاتا تو ڈاکٹر ارسلان کو بلایا جاتا۔ وہ اپنے کام میں ماہر تھا۔ ونٹی لیٹر کو چلانا، مشین پر لگے مریض کی کیفیات کو پڑھنا، آئی وی لگانا، سیچوریشن دیکھنا اور مریض کو سکشن کروانا اسکا روزمرہ تھا۔تجربہ تو اسکا ابھی صرف سات آٹھ برس کا تھا لیکن وہ ڈیوٹی کے دوران پیچیدہ مسائل میں نرسوں کو بہترین صلاح بھی دیا کرتا تھا۔ بات تو وہ نرس سے کر رہا تھا لیکن اسکی نظریں نبیلہ پر جمی تھیں۔ وہ اسکی فرض شناسی سے لیکر، چال ڈھال، گفتگو، ہر چیز کا معترف تھا اور اسے بے حد پسند کرتا تھا اور اسکے ساتھ مستقل تعلق کے لئے کھل کر نہ سہی ، زیرِ لب اشاروں کنایوں میں اظہار کر چکا تھااور نبیلہ یہ بھی جانتی تھی کہ ارسلان کو اس وارڈ میں کوئی کام ہو یا نہ ہو وہ اسکی ڈیوٹی کے دوران ایک دو بار ادھر کا چکر ضرور لگاتا تھا اور اسکا حال احوال پوچھتا تھا۔
نبیلہ نے ارسلان کو اپنے ڈیسک کی جانب آتے دیکھا تو اسنے سوچا کہ وہ اسکی مشکل آسان کرسکتا ہے۔ لیکن ساتھ ہی اسے یہ بھی خیال آیا کہ وہ بدلے میں اسکے لئے کیا کر سکتی ہے جبکہ اسے اچھی طرح معلوم ہے کہ وہ اسے کتنا چاہتا ہے اور ایک مستقل تعلق کا خواہاں ہے۔ بحر حال اس وقت تو اسے اس مشکل سے نکلنا تھا۔ جونہی ارسلان نے نبیلہ کے پاس پہنچ کر علیک سلیک کی تو نبیلہ نے آہستہ ٓواز میں سارا قصہ بیان کیا اور بتایا کہ اسے ایک ایسے ضروری کام کے لئے جانا ہے جسے وہ کسی صورت ٹال نہیں سکتی اور نہ مزید ٹہر سکتی تھی۔ ارسلان نے ساری بات نہایت اطمینان سے سنی اور اسے ہاتھ کے اشارے سے تسلی دی کہ وہ فکر نہ کرے، وہ سب سنمبھال لے گا۔ نبیلہ نے بیڈ نمبر پندرہ کے مریض کے کاغذات اسکے حوالے کئے اور ایک جھٹکے سے اٹھی اور تقریبا بھاگتی ہوئی ڈریسنگ روم میں پہنچی۔ اس نے اوورآل اتار کر دیوار پر ٹانگے کی کوشش کی جو بار بار زمین پر گر رہا تھا اور وہ تیسری مرتبہ اسمیں کامیاب ہوئی۔ اسنے ہیڈ نرس کی کیپ اتاری۔ بیگ میں سے برش نکالا۔ بالوں کو درست کیا۔خوشبو دار ٹشو پیپر سے سارا چہرہ صاف کیا۔ قد آدم شیشے میں اپنی کورل لیس کی کروشئے کی شرٹ کے بل درست کئے، فیروزی رنگ کی
Tights کی خیالی شکنیں درست کیں، auqa shoesپہنے اور سی گرین رنگ کی جیکٹ پہن کرباہر بھاگی۔ لفٹ کے شیشے میں اسنے ہونٹوں پر لپ سٹک جمائی اور گراونڈ فلور کا بٹن دبا دیا۔ نیچے پہنچنے تک کئی اور خیال اسکے دماغ میں آتے رہے۔ اسے خیال آیا کہ وہ اپنے فرض میں کوتاہی کر رہی ہے۔ پھر خیال آیا کہ نہیں یہ صرف ایک بار کی بات ہے پھر کبھی نہیں۔ وقت کافی گزر چکا تھا۔ اسپتال سے باہر نکل کر ٹیکسی فورا مل بھی جائے تو ایم ایم عالم روڈ تک پہنچنے میں چالیس منٹ تو ضرور لگیں گے اور شام کے اس وقت تو اس طرف کی سڑکیں گویا انسانوں اور گاڑیوں کے سمندر میں تبدیل ہو جاتی ہیں۔ وہ بہت لیٹ ہو جائے گی، اسے آزاد کو کم از کم فون تو کر دینا چاہئے۔ اسپتال کے گراونڈ فلور کے کونٹر سے اسنے فون ملایا لیکن رابطہ نہ ہو سکا۔ مریض کے انتقال کی اطلاع سے لیکر ڈاکٹر ارسلان سےfavour   مانگنےتک تمام مناظر اسکی آنکھوں کے سامنے سے پھر گزرے اور دماغ میں ہونے والی دھما چوکڑی مزید تکلیف دہ ہو گئی۔ اسنے پرس سے سیل فون نکالا، دو ایک بار فون ڈائل کرنے کے بعد آزاد کا نمبر مل گیا۔ اسنے مختصر سی بات کی اور تیز قدموں سے لفٹ کی جانب بھاگی۔ چند منٹ بعد وہ اسپتال کے تیسرے فلور پر ڈاکٹر ارسلان کے سامنے کھڑی سوچ رہی تھی کہ واقعی کچھ کام طے شدہ وقت پر نہ ہو ں تو کبھی نہیں ہوتے۔