اتوار، 13 ستمبر، 2015

آ د ھی کھڑ کی


آ د ھی کھڑ کی
راشد جاوید احمد

میری نظروں کے بالکل سامنے اس اونچی دیوار میں ایک کھڑکی ہے۔میں جب بھی فاییلوں سے سر اٹھاتا ہوں تو میری نظر کمرے کے سامنے والی دیوار پر پڑتی ہے جہاں چاچا رحمت بیٹھا ہے۔رحمت کے پیچھے ایک دیوار ہے اور دیوار کے پار ایک وسیع لان جس کی انتہائی دیوار کی پرلی طرف وہ اونچی دیوار ہے جس میں ایک کھڑکی ہے۔ اس کھڑکی کے ایک حصے پر پردہ پڑا ہے اور یوں میری نظروں کے سامنے آدھی کھڑکی ہے۔
اس وقت میری میز پر اتنا کام نہیں اور میں دفتر میں آنے جانے والوں کا جائزہ لے رہا ہوں لیکن جب بھی میں نظر اٹھا کر سامنے دیکھتا ہوں تو میری نظر لان میں اگے پھل دار درختوں اور پھولوں سے ہوتی ہوئی اس کھڑکی پر جا رکتی ہے۔کبھی کبھی اس بڑی سی کوٹھی کے بڑے سے لان میں ایک بوڑھا مالی پودوں کی دیکھ ریکھ کرتا نظر آتا ہے۔وہ ہمیشہ ملیشئے کی شلوار قمیص اور میلی سی صدری میں ملبوس ہوتا ہے۔اسکا گنجا بیضوی سر دھوپ کی شدت سے سرخ یاقوت کی مانند نظر آتا ہے۔مٹی ملے ہاتھوں سے وہ اپنے سر اور منہ سے پسینا صاف کرتا ہے، کوٹھی میں رہنے والا کوئی بندہ بشر نظر نہیں آتا، البتہ گھر کے گیراج میں کھڑی کالے رنگ کی بڑی سی گاڑی کی پچھلی بتیاں نظر آتی ہیں۔لان میں گہری خاموشی ہے اور مالی بھی خاموشی سے کام کر رہا ہے۔میں اس خاموشی سے اکتا کر اپنے ساتھ کام کرنے والوں کی طرف دیکھتا ہوں جو اپنے اپنے کام کے ساتھ گپ شپ میں مشغول ہیں۔میرے کام کی نوعیت ہی ایسی ہے کہ کبھی بے تحاشا کام ۔۔دین دنیا بھلا داینے والا اور کبھی مکمل فراغت اور اس فراغت میں جب مین دفتر کے میکانکی ماحول سے چھٹکارے کے لئے نظریں اوپر اٹھاتا ہوں تو میری نظر کھڑکی پر جا پڑتی ہے۔میں نے اپنے ایک ساتھ کارکن کو اس کھڑکی کے بارے میں بتانا چاھا تو اسے میری دماغی حالت پر کافی تشویش ہوئی۔ایک اور نے تو مجھے اس کھڑکی کے سحر سے نکلنے کا مشورہ دیا۔تیسرے نے بس ہنس کر ٹال دیا۔۔کھڑکی کچھ اس مضبوطی سے بند ہے کہ اسے کھولنا مشکل ہے۔
میں اپنی میز سے اٹھ کر چاچے رحمت کے پاس آ کھڑا ہوتا ہوں۔اب مجھے لان میں اگے انار اور آم کے درخت صاف دکھائی دیتے ہیں۔ اوپر تلے آنے والی موسمی آندھیوں کی وجہ سے کافی پھل ضایع ہو چکا ہے۔خشک پتے اور سوکھی لکڑیاں لان کے ایک کونے میں ڈھیر ہی۔دیوار کے پار اب کھڑکی زیادہ صاف نظر آ رہی ہے۔میری نظریں کھڑکی کی طرف ہیں اور چاچا رحمت مجھ پر طنزیہ جملے پھینک رہا ہے لیکن میں ایک اور ہی نظارے میں گم ہوں۔میرے سامنے کھڑکی کا آدھا پٹ کھلا ہے لیکن اندر بھت اندھیرا ہے۔چیزوں کا عکس صاف نظر نہیں آ رہا۔میں ذرا غور سے دیکھنے کی کوشش کرتا ہوں تو کمرے کی ایک نکر سے دوسری تک ایک رسی بندھی نظر آتی ہے جس پر ایک مردانہ قمیص، بچوں اور عورتوں کے ایک دو کپڑے لٹکے ہیں۔ایک طرف پیڈسٹل فین کا کچھ حصہ اور پانی کا ایک ڈرم نظر آ رہا ہے۔کمرے کی تاریکی کے ساتھ ساتھ اندر کا حبس بھی محسوس ہو رہا ہے۔اچانک میں ایک بچے کی قلقاری کی آواز سنتا ہوں تو کھڑکی میں میری دلچسپی اور بڑھ جاتی ہے۔مہندی لگے دو سانولے ہاتھ نظر آتے ہیں جن کے ساتھ باوز میں پرانے فیشن کی موٹی چوڑیاں ہیں۔آہستہ آہستہ موٹے اور بھدے نین نقش والی ایک عورت کا مہاندرہ نظر آتا ہے۔بالکل کھڑکی کے سامنے۔۔ایک منٹ کے لئے اور پھر غائب۔۔۔
مجھے یاد آتا ہے کہ یہ چہرہ میں نے پہلے بھی کہیں دیکھا ہے۔میں اپنے ذہن پر زور دیتا ہوں۔ہاں بالکل وہی چہرہ۔۔وہی نین نقش۔۔اپنے گھر میں، اپنے محلے میں، دفتر میں،اپنے دوست کے گھر۔۔۔سڑک پر۔۔۔گلی میں۔۔میری نظریں اس آدھی کھلی کھڑکی کے اندر گڑی ہیں اور میرا دماغ اس چہرے کی پہچان میں مصروف ہے۔چاچا رحمت نے تھکان باتیں بنائے جا رہا ہے۔ میرا دھیان اپنی جانب کرنے کے لئے وہ میری قمیص کھینچتا ہے۔ میں رحمت کی طرف متوجہ ہونے ہی لگتا ہوں کہ چہرہ ایکبار پھر دکھائی دیتا ہے۔وہی ناک، وہی کان، وہی ماتھ، وہی ہونٹ، ہونتوں پر بے بسی اور افسردگی۔۔سخت چہرے پر پھیلا جبر۔۔بالکل وہی چہرہ ۔۔میں نے یہ چہرہ کئی بار دیکھا ہے۔باورچی خانے میں،بس سٹاپ پر،ریلوے ستیشن پر، دفتر میں ، شہر کے بڑے چوک میں۔۔۔وہاں اس قسم کے اور بھی کئی چہرے تھے۔سب کے ہونٹوں پر جبر، آنکھیں اندر کو دھنسی۔۔ان کی زبانوں پر ان کے دل کی پکار۔۔مہندی لگے ہاتھوں نے ایک دوسرے کو پکڑ رکھا تھا۔۔اپنے دوپٹے اپنی کمروں سے باندھے وہ ایک ہی سر تال میں دھمال ڈالے جا رہے تھے۔میں نے اس مہاندرے کو پہچان لیا ہے۔۔میں آنسو گیس کے شیل فائر ہونے کی آواز سن رہا ہوں۔چہرہ زور سے چیخا ہے۔میں چاچے رحمت سے پوچھتا ہوں کہ اس نے چیخ کی آواز سنی ہے ؟ وہ عجیب نظروں سے میری طرف دیکھتا ہے۔۔چاچا چیخ کی آواز اس کھڑکی میں سے آئی ہے۔۔میں اسے بتاتا ہوں۔۔اس آدھی کھڑکی سے۔۔جس پر پردہ پڑا ہے۔۔میں یہ پردہ گرا دینا چاہتا ہوں چاچا۔۔۔
کوئی عقل کے ناخن لو۔۔اچھے بھلے شریف آدمی ہو تم۔۔۔چاچا کہتا ہے۔
یہ پردہ ضرور گرے گا ایک دن۔۔۔میں سوچتا ہوں لیکن چاچا رحمت مجھے دھکیل کر میری میز کی طرف لے جاتا ہے جہاں آج کی تازہ ڈاک رکھی ہے اور مجھے اس کوآج ہی ڈسپوز آف کرنا ہے ::


کوئی تبصرے نہیں: