راشد جاوید احمد
وہ پل پر پہنچتا ہے، رک کر سانس ہموار کرتا ہے، سر اوپر اٹھاتا ہے۔ درختوں پر پرندے مختلف بولیاں بولتے ہیں، وہ گہری سانس لیتا ہے، پاکیزہ ہوا کو اپنے اندر جذب کرتا ہے۔کوئل گھونسلے سے گردن نکال کر اسے دیکھتی ہے۔ وہ جسم ڈھیلا چھوڑتا ہے اور پانی میں اتر جاتا ہے۔
سو فیٹ چوڑا راجباہ اسکے بازوءں کے حلقے میں سمٹ آتا ہے۔ پانی اتنا صاف ہے کہ باہر کھڑے لوگ اس کے تیرتے ، بل کھاتے جسم کی ہر حرکت ہر زاویہ دیکھ پاتے ہیں۔ پل کی دوسری جانب لہلہاتے کھیتوں میں مکئی اور جوار کی فصلیں ایستادہ ہیں۔ پکی سڑک کے آر پار، دوکانوں سے متصل، مسجد اور پچھواڑے میں راجباہ کی کچی پٹڑی پر کچے مکان ہیں۔ صرف چائے والے کا کھوکھا پکا ہے۔ سبزی والا، مٹھائی والا اور رحمت سایئکل ورکس، سب کچے کھوکھوں میں اپنا اپنا رزق کما رہے ہیں۔
’’ میاں ۔ یہ بات بہرحال اچھی نہیں۔۔‘‘پان کا بیڑہ کلے میں دبا ئے، سیشن جج کا ریڈر کہتا ہے
’’ معلوم ہوتا ہے اسے کسی اور کام میں دلچسپی ہی نہیں۔۔۔‘‘ مولوی صدرالدین مسجد سے باہر نکلتے ہوئے اظہارِ خیال کرتے ہیں۔
’’ اجی ہمارا کیا لیتا ہے۔۔۔‘‘ منشی میر دین ، رحمت سایئکل ورکس پر کھڑے پمپ سے ہوا بھرتے ہوئے کہتے ہیں۔
’’ لیکن یہ بتا دوں کہ ایک دن پچھتائے گا۔۔۔‘‘ ریڈر اپنی دستار سر پر ٹھیک سے جماتے ہوئے کہتا ہے۔
’’ ہاں۔ ایک دن پانی اس کے پھیپھڑوں میں گھس جائے گا اور ۔۔بس۔۔۔‘‘
’’ نہیں جمالے۔ تم نہیں جانتے، وہ بڑا مشاق ہے، دو گھنٹے پانی میں تیرتا ہے لیکن پانی کو پاس نہیں آنے دیتا۔ ۔۔۔‘‘احمد سعید اپنی عینک کے شیشوں سے گرد صاف کرتے ہوئے کہتا ہے اور پل کی جانب سے آنے والے تانگے پر بیٹھ جاتا ہے۔
’’ ہونہہ، پانی پاس نہیں آنے دیتا۔۔یہ کل کا لونڈا نہ جانے کیا ہانک گیا ہے۔۔۔‘‘
’’ ہاں جی میاں جی۔۔دیکھو کیسی بات کر گیا ہے۔ پانی پاس نہیں آنے دیتا ؟ اور اسے تو دیکھو، پہلے کنارے کنارے دوڑتا ہے، پھر سانس لینے کے لئے شیشم کے اُس بڑے درخت کے نیچے رکتا ہے اور پرندوں سے باتیں کرتا ہے۔پھر پانی میں چھلانگ۔۔۔۔‘‘
مجھے تو وہ کوئی اور ہی مخلوق لگتا ہے، انسانوں سے تو بات ہی نہیں کرتا۔۔۔‘‘
’’ نہیں جمالے، ہے تو وہ انسان ہی، بیوی ہے، بچہ ہے، شہر میں کام کرنے جاتا ہے بس ہے ذرا مختلف سا۔۔۔‘‘ احمد سعید چلتے تانگے سے اعلان کرتاہے۔
’’ اچھا بھائی جمال دین۔ اب چلیں۔ کچہری کا وقت ہونے والا ہے لیکن اتنا اسے بتا دینا کسی طرح کہ یہ بات اچھی نہیں۔ ۔۔۔‘‘
اسکے ساتھ ہی جمال دین کی دوکان روزمرہ کے گاہکوں سے خالی ہو جاتی ہے البتہ مولوی صدر الدین اپنی براون داڑھی پر ہاتھ پھیرتے لجاجت زدہ لہجے میں تانبے کی پتیلی آگے بڑھا کر کہتے ہیں
’’ بھائی جمال دین۔۔ ذرا دینا تو۔۔۔‘‘
جمال دین بالائی بھرا ایک سیر دودھ پتیلی میں انڈیل دیتا ہے
’’ اور ہاں۔۔ رات کو یاد ہے ناں۔۔۔‘‘
’’ یاد ہے ، مولوی صاحب یاد ہے۔۔۔۔‘‘ مولوی صاحب کے جانے کے بعد جمال دین ایک میلی پرانی کاپی نکالتا ہے اور مولوی صاحب کے نام کے آگے ایک سیر دودھ مع بالائی لکھ دیتا ہے۔
وہ تیرتا ہوا پل کی جانب آتا ہے۔ پل کے شکستہ جنگلے کا سہارا لیکر پانی سے باہر نکلتا ہے اور جنگلے سے ہی ٹیک لگا کر تھوڑی دیر سستاتا ہے۔ پھر پل کی بائیں جانب جہاں کچے پکے مکانات بنے ہیں ، لمبے لمبے ڈگ بھرتا روانہ ہو جاتا ہے۔ مسجد کے حجرے کی کھڑکی سے مولوی صدرالدین کی آنکھیں اسے گھورتی ہیں۔وہ بے خبر چلا جا رہا ہےَ ۔ ریڈر صاحب کا چھوٹا بیٹا اپنے گھر کے پکے تھڑے کے آگے بلور کی گولیاں کھیل رہا ہے۔ ایک گولی لڑھکتی ہوئی اسکے پاوں کے نیچے آتی ہے۔ وہ جھک کر گولی اٹھاتا ہے اور بچے کے ہاتھ میں دے کر اسکا چہرہ تھپتھپاتا ہے۔ بچے کی ماں پردے کی اوٹ سے بچے کو اندر کھینچ لیتی ہے اور وہ شرمندگی سے مسکراتا ہوا اپنے گھر میں داخل ہو جاتا ہے۔
’’ روٹی ادھر چنگیر میں رکھی ہے گلزار۔۔۔‘‘ بشری کچی مٹی کی دیواروں پر لیپ کرنے کے بعد ہاتھ دھوتے ہوئے کہتی ہے۔ ناشتے سے فارغ ہو کر وہ اوزاروں کا تھیلا کاندھے پر لٹکاتا ہے اور پیدل ہی شہر کی جانب ہو لیتا ہے۔ پھل والا، سبزی والا، رحمت اور جمال دین ، سب اسے جاتا دیکھتے ہیں اور آنکھوں ہی آنکھوں میں گفتگو کرتے ہیں۔
اندھیرا گہرا ہوتے ہی حبس پر پھیلا لیتا ہے۔ لالٹین کی ملگجی روشنی میں زوروں کی بحث ہو رہی ہے۔
’’ اجی باز کیسے نہیں آئے گا۔۔۔‘‘ حقے کی نے جمالے کی طرف کرتے ہوئے مولوی صاحب کہتے ہیں
’’ وہ اس بستی میں رہتا ہے، صبح کے علاوہ نظر نہیں آتا، کسی سے بات نہیں کرتا، آخر وہ اپنے آپ کو سمجھتا کیا ہے۔۔۔‘‘
’’ انسانی جسم کے ساتھ بے شمار آلایشیں ہوتی ہیں۔۔وہ مسلسل پانی کو گندہ کر رہا ہے۔۔۔‘‘ مولوی صاحب نے گلا کھنکار کر کہا۔
’’ اب کچھ کرنا ہی پڑے گا۔۔۔ وہ متفقہ فیصلہ کرتے ہیں۔
ایک لمبی دوڑ کے بعد وہ پل پر پہنچتا ہے۔ سر اوپر اٹھاتا ہے ۔ کوئل اپنے گھونسلے میں پریشان نظر آتی ہے۔ گہری سانس لے کر وہ فضا کی ہوا اپنے اندر جذب کرتا ہے۔ ھیرانی اسکے ماتھے سے پھوٹتی ہے۔ ہوا اسے کچھ بوجھل محسوس ہوتی ہے۔ لیکن وہ اسے وہم سمجھتے ہوئے نظر انداز کرتے ہوئے پانی میں اتر جاتا ہے۔ دو گھنٹے کی تیراکی کے آخری مرحلے میں وہ پل کی جانب آتا ہے کوئی نرم نرم چیز پانی میں اسکے سر سے ٹکراتی ہے۔ خاکی رنگ کا لفافہ اسکے ہاتھوں میں کھل جاتا ہے۔ گندگی اسکے ہاتھوں پر پھیل جاتی ہے۔کچھ نہ سمجھتے ہوئے وہ ہاتھ پانی میں مار مار کر گندگی باہر نکالنے کی بے سود کوشش کرتا ہے۔
’’ روٹی چنگیر میں رکھی ہے گلزار۔۔۔‘‘ وہ روٹی کی جانب آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھتا۔بشری کی گود میں ہمکتے بچے کو ماتھے پر بوسہ دیتا ہے اور اوزاروں کے تھیلے سمیت گھر سے باہر نکل آتا ہے۔
حبس کل کی نسبت زیادہ ہے
رات کافی بیت چکی ہے لیکن جمال دین کی دوکان ابھی کھلی ہے۔ اب یہاں گئی رات تک مباحثے چلتے ہیں۔ پھر ایسا ہوتا ہے کہ گھونسلے کے تنکے سوکھتے جاتے ہیں۔ گندگی روز بروز بڑھتی جاتی ہے۔ پہلے وہ دو گھنٹے تیرتا تھا اب بمشکل ایک گھنٹہ اور باقی ایک گھنٹہ اسے گندگی پانی سے باہر نکالنے میں لگتا ہے۔ اسکی پیراکی کا عرصہ دو گھنٹے سے ایک، پھر نصف اور اب پندرہ منٹ رہ گیا ہے۔ کچی پٹڑی پر ننگے پاوں چلتے ہوئے یکدم اسکی چیخ بلند ہوتی ہے۔ پاوں میں چبھنے والے شیشے نے اسکا پاوں زخمی کر دیا ہے۔ لہو کے قطرے اسکی سمت کا پتہ دیتے ہیں۔ کئی دن بعد وہ گھر سے نکلتا ہے تو کچی پٹڑی جو اسکے لئے ریس گراوئنڈ تھی ، پرانی لیروں، چمڑے کے ٹکروں، آہنی کیلوں، پھلوں سبزیوں کے چھلکوں سے اٹی پڑی ہے۔ وہ آہستہ آہستہ چلتا ہوا پل پر پہنچتا ہے۔ سر اٹھا کر درختوں کی طرف دیکھتا ہے، حیرانی اسکے سارے جسم میں دوڑ جاتی ہے۔ نہ گھونسلہ نہ درخت، وسیع و عریض راجباہ ایک بد رو کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ وہ پل پر لگے جنگلے پر ہاتھ پھیرتا ایک طرف سے دوسری طرف جاتا ہے۔تعفن اور سڑانڈ اسکے نتھنوں میں در آتے ہیں۔ مایوس و لاچار وہ پل سے اتر کر گھر کی جانب آتا ہے۔ حجرے کی کھڑکی سے، جمال دین کے ہوٹل کی بالکنی سے، ریڈر کے دروازے کی چلمن سے امید بھری آنکھیں اسے گھورتی ہیں۔ وہ گھر کے اندر جاتا ہے لیکن دوسرے ہی لمحے وہ اپنا دایاں پاوں باہر نکالتا ہے، پھر بایاں پاوں ، پھر اسکا سر نظر آتا ہے اور کاندھے پر اوزاروں کا تھیلا۔
’’ مگر اسے تو کوئی فرق نہیں پڑا۔۔۔‘‘ گھورتی آنکھیں ایکدوسرے سے سوال کرتی ہیں۔ لیکن جلد ہی خوشی سے منور ہو جاتی ہیں۔ اب وہ پوری طرح گھر سے باہر ہے۔ اسکے دوسرے کاندھے پر ایک اٹیچی کیس ہے، بشری بچے کو اٹھائے اس کے عقب سے نکل کر سامنے آتی ہے۔ اوزاروں کا تھیلا اور اٹیچی چھین کر گھر کے اندر پھینکتی ہے۔
اب وہ دونوں اسی زمین پر بیٹھے، زمین میں پیوست کانچ کے ٹکڑے، پرانی لیریں اور چھلکے نکال کر کوڑے کے ڈھیر پر پھینک رہے ہیں ۔ نیم برہنہ بچہ اسی زمین پر بیٹھا کلکاریاں مار رہا ہے۔
1 تبصرہ:
(صرف ایک زمین) ایک NATIVE کی کہانی ھے۔۔آج جہاں ایک خود غرض سرمایہ دار بات بات پر وطن کی برائی کرتا دُبئی جانے کی بات کرتا ھے۔۔۔۔وہاں یہ دھرتی سے جڑا تیراک اپنے پریوار کے ساتھ سب کا پھینکا ھوا گند صاف کرتا نظر آتا ھے۔۔ھمیں پھیلاو پسند نہیں۔۔خود خول میں رہتے ھیں اور دوسروں کو بھی بند گلی میں بھاگتے دیکھنا چاھتے ہیں۔۔۔(صرف ایک زمین) ایک کہانی نہیں ایک المیہ ھے۔۔۔جو کھلے پانیوں کو جوہڑ بنا رہا ھے۔۔۔۔۔۔تنویر قاضی
ایک تبصرہ شائع کریں