الف شفق
میری پسندیدہ تخلیق کار
الف شفق فرانس میں ترکش
نژاد والدین کے ہاں پیدا ہوئی۔ کمسنی میں ہی ماں باپ کی علیحدگی کے بعد ماں کی گود
میں پروان چڑھی۔ اس غیر معمولی بچپن نے بعد میں اسکی تحریروں پر گہرا اثرمرتب کیا۔
ناقدین ادب کے مطابق وہ ترکی اور عالمی ادب میں ایک منفرد آواز ہے۔ اسنے کل ۱۴ کتابیں لکھی ہیں جن میں ۹ ناول ہیں۔ یہ کتابیں
ترکی اور انگریزی دونوں زبانوں میں ہیں اور کئی دیگر زبانوں میں ترجمہ ہو چکی ہیں۔
ادیب ہونے کے علاوہ وہ ایک سیاسی سائنسدان بھی مانی جاتی ہے۔ بین الاقوامی تعلقات
کی ڈگری کے علاوہ اسنے جینڈر اند ویمن سٹدیز میں ایم اے کیا اور پولیٹیکل سائنس
میں ڈاکٹریٹ کی۔ ۲۰۱۴ میں اسنے بچوں کے لئے
ادب تخلیق کیا اور وہ راک موسیقاروں کے لئے گانے بھی لکھتی ہے۔ اسکی کہانیوں میں عورت،
اقلیتیں،تارکینِ وطن، عام لوگ اور عالمی ارواح کا ذکر ملتا ہے۔ اسکے ناولوں میں
اقوامِ عالم کے مختلف کلچر، روایات، تاریخ، فلسفہ،صوفی ازم اور کلچرل سیاست کے
علاوہ مشرق و مغرب کے خوبصورت امتزاج موجود ہوتے ہیں۔ اسکے پہلے ترکی ناول پناہ کو
ادبی ایوارڈ ملا۔ناول The
Gaze کوبہترین ناول گردانتے ہوئے یونین پرائز دیا
گیا۔ ناول The Flea Palace کو
بیسٹ فکشن ایوارڈ ملا۔ دیگر بہت سے ناول انعام کے حق دار ٹہرے۔
میں نے بھی حسبِ توفیق اور باعثِ دستیابی الف شفق کے کچھ ناول مطالعہ کئے۔ ناول Forty Rules of Loveکسی بھی قسم کے تھرل کی غیر موجودگی کے باوجود بہت کم وقت میں بہت زیادہ پڑھا جانے والا ناول ہے۔ صرف ترکی میں اس ناول کی ۶ لاکھ کاپیاں خریدی گئیں اور اسے فرانس نے سپیشل لٹریچر ایوارڈ دیا۔ مرتبے اور ثقافتی نمود کی نفی کرتا ہوا یہ ناول سترھویں صدی کی ممتاز شخصیات، مولانا روم اور شمس آف تبریز کے بارے میں ہے۔ (شمس آف تبریز اور ملتان والے شمس تبریز الگ الگ روحانی شخصیات ہیں ) شمس آف تبریز ایک فقیرمنش ، بے گھر عالم تھا جو قرآنِ پاک کی تشریح محبت اور عفو کے عنوان سے کرتا تھا ۔ اس وقت کے خود مقرر کردہ محافظ دین اسکی تشریحات کو ناپسند کرتے تھے۔رومی سے اسکی ملاقات، گویا اسکا مقدر تھی۔دونوں بزرگوں کا یہی خیال ہے کہ انکی ملاقات میں واقعی تقدیر کا ہاتھ تھا۔ اس ناول میں کہانی زیادہ تر شمس کی زبانی بیان کی گئی ہے۔ شمس کی سیلانی طبیعت انہیں بغداد کے شہر کونیا میں کھینچ لائی جہاں رومی پہلے ہی سے ایک جید مقرر اور عالمِ دین مانے جاچکے تھے۔ الف شفق نے بہت خوبصورتی اور چابک دستی سے قرونِ وسطی کے ترکی کو جگایا ہے۔ اس میں اسکے کردار درویش، عام لوگ، گناہ کار، بھکاری، پیروکار اور بیسوائیں ہیں جو زبان رکھتے ہیں۔ رومی کے اپنے بیٹے اور بیوی بھی بولنے کا حق رکھتے ہیں۔ جوں جوں رومی اور شمس کی دوستی گہری ہوتی جاتی ہے گھر کے افراد الگ تھلگ محسوس کرنے لگتے ہیں۔ اس ناول میں بس یہی کرادر نہیں۔ ایلا اور ۴۰ یہودی بیویاں ہیں۔ ایلا ، خاندان، تحفظ اور پر عیش زندگی کی مالک ہونے کے باوجود اپنے شوہر، اپنی زندگی حتی کہ خود اپنے آپ سے بیزار ہے۔ وہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر ایک اشاعتی ادارے میں نوکری کرتی ہے جہاں وہ مسودے پڑھتی ہے۔یہیں شمس اور رومی کے حوالے سے لکھے ایک ناول کا مسودہ اسکی نظر سے گزرتا ہے۔ یہی وہ مسودہ ہے جو اس ناول کی بنیاد ہے۔ ناول میں دو الگ الگ کہانیاں ہیں جن کو آپسمیں جوڑا گیا ہے لیکن یہ بنت اتنی بھاری بھرکم بن گئی ہے کہ باقی کے ناول کو ۔۔۔۔۔۔کر دیا ہے۔یہ ناول ، محبت، ماضی، حال، روحانی اور دنیاوی معاملات کو شمس آف تبریز اور رومی کی روحانیات کے آئینے میں عکس کرتا ہے۔ وہ لوگ جو زندگی کی حقیقت اور اسمین پوشیدہ رموز کی تلاش میں ہیں، انکو یہ ناول بے حد پسند آئے گا۔
The Bastard of Istanbul
الف شفق کا یہ چھٹا ترکی ناول ہے اور انگریزی میں دوسرا۔ یہ دو خاندانوں کی کہانی ہے ۔ ایک ترک خاندان جو استنبول میں رہتا ہے اور دوسرا آرمینائی جو سان فرانسسکو میں ہے۔ چونکہ الف شفق بذاتِ خود ایک پر جوش feminist ہے اسلئے اس ناول میں پر جوش اور ناقابل گمان عورتوں کے کرداروں کی بہتات ہے اور پورے ناول میں صرف ایک مرد کردار ہے اور وہ بھی کردار کم اور سمبل زیادہ ہے۔ شروع ہی سے اس کردار کا ذکر ادھر ادھر ملتا تو ہے لیکن اسکی کوئی حقیقی اہمیت نظر نہیں آتی۔ اس کہانی میں مصنفہ، اپنے ملک ترکی کے متشدد ماضی کو واضح کرتی ہے اور ۱۹۱۵ میں آرمینیوں پر ترکوں کے ظلم و ستم کا بیان کرتی ہے۔ روز ایک امریکی خاتون ہے جو اپنے آرمینی شوہر کو طلاق دے کر ایک ترک سے شادی کرتی ہے اور اس بات کا حض لینا چاہتی ہے کہ اسکی پہلے شوہر سے بیٹی آرمانوش کو اب ترک خاندان پالے گا۔ آرمانوش اپنے آپ کو امریکی ماں، ایریزونا میں ترک سوتیلے دادا، اور سان فرانسسکو میں آرمینائی باپ اور نانی کے درمیان پاتی ہے اور ان دونوں خاندانوں میں یگانگت کی کوشش کرتی ہے۔ الف شفق نے یہاں ان آرمینیوں کو ترک دشمن دکھایا ہے اور وہ اپنی آرمنوش کو ہر قسم کا تحفظ دینا چاہتے ہیں۔آرمونوش ، آرمینین، امریکن چیٹ گروپ کے ذریعے اپنی آرمینائی جڑوں کی تلاش میں ہے اور ہر قسم کے بحث مباحثے میں حصہ لیتی ہے جن میں آرمینیوں کے قتلِ عام کا تذکرہ بھی ہوتا ہے۔ یہاں اسے اپنے سوالوں کے درست جواب نہیں ملتے تو ایک دن وہ ماں باپ کو بتائے بغیر استنبول روانہ ہو جاتی ہے۔ استنبول پہنچ کر وہ اور زیادہ پریشان ہوتی ہے کہ اس خاندان کی عورتیں اسکی سمجھ سے بالا تر ہیں۔ ایک پڑ نانی جو یاداشت کھو چکی ہے، ایک ناراض ناراض الگ تھلگ نانی، ایک بیٹی جو اپنے آپ کو۔۔۔۔۔سمجھتی ہے، دوسری بیٹی ایک سکول ٹیچر، تیسر ی بیٹی اپنی تصوراتی دنیا میں مگن اور سب سے چھوٹی، جنگجو اور ایک ٹیٹو پارلر کی مالک۔ اسی کی ایک حرامی بیٹی آسیہ۔ جلد ہی آسیہ اور آرمونوش کی گہری دوستی ہو جاتی ہے۔ Bastard اسی آسیہ کی کہانی ہے اور ناول کے آخر میں قاری پر ایک حیران کن انکشاف ہوتا ہے اور الف شفق واحد مردانہ کردار مصطفی کو آرمینایوں کے قتلِ عام کا سمبل بناتی ہے۔ اس ناول کی بنا پر مصنفہ پر مقدمہ بھی چلایا گیا لیکن پھر عدم دلچسپی کی بنا پر خارج کر دیا گیا۔ یہ ناول قاری کوشفق کی دیگر تصانیف پڑہنے پر ابھارتا ہےَ ۔ اسکی تحریر میں تاریخی واقعات کو کمال مہارت سے قاری تک پہنچایا گیا ہے۔ سسپنس اور اپنے کرداروں کے ساتھ بونے میں شفق کو کمال حاصل ہے۔ صوفیا ء کا ذکر اور انکا مباحثہ و مناظرہ پڑہنے سے تعلق رکھتا ہے۔
The Flea Palace ترکی میں لکھا گیا لیکن اسکا انگریزی ترجمہ بھی کمال کا ہے۔ یہ ناول شہر استنمبول کی شان، شدت اور تنوع کو ظاہر کرتا ہے۔ کہانی بون بون پیلیس میں رہنے والے لوگوں پر مشتمل ہے اور اسی ایک عمارت اور اسکے مکینوں کا بیان کرتے ہوئے شفق نے بتایا ہے کہ ترکی کس طرح مغربی یورپ کے ملکوں سے الگ تہذیب رکھتا ہے۔ اس ناول کے ایک ایک صفحے سے شفق کی استنمبول کے لئے محبت آشکار ہے۔
The Black Milkشفق کا یہ ناول ایک تجربہ ہے۔ ایک خاتون مصنف کا ماں بننے کا تجربہ۔ وہ اس وقت اپنے اندر کسی اور ہی عورت کا وجود محسوس کرتی ہے اور اسے ایک ڈیپریشن کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ شادی کے بعد ماں بننے کا بمقابلہ مصنف ہونے کے۔ وہ کئی ایسی خاتون لکھاریوں کا ذکر کرتی ہے جو اس ڈیپریشن میں مبتلا رہیں۔ شفق کا خیال ہے کہ لکھاری باطنی رویہ introvert رکھتا ہے اور ایک ماں غیر باطنی۔ extrovert۔ اسکے مطابق ناول نگار کے ذہن میں کئی چھوٹے چھوٹے کمرے ہوتے ہیں جن کو وہ لکھتے وقت مقفل کر دیتا ہے اور اپنے تمام راز لوگوں کی آنکھوں سے چھپائے رکھتا ہے جبکہ ایک ماں کے گھر کے تمام دروازے ہر موسم اور دن رات کھلے ہوتے ہیں اور بچے جب چاہیں اندر باہر آ جا سکتے ہیں۔ بہر حال اسکا یہ احساس ناول کے اختتام پر قابو میں آ جاتا ہے۔
The Gaze شفق کا یہ ناول بے حد دلچسپ ہے۔ مس فٹ افراد کے ساتھ معاشرہ جو سلوک کرتا ہے، اس ناول کی تھیم ہے۔ کہانی وکٹوریہ دور کے ایک ناظم تھیٹر کرمت آفندی کی ہے جو دیگر کرداروں کی کچھڑی میں الگ سا دکھائی دیتا ہے۔ایسا معاشرہ جہاں ظاہری نمود و نمایش اور دکھاوا ہی سب کچھ ہو، وہاں ایک عجیب الخلقت کا ہونا کیسے برداشت کیا جا سکتا ہے۔ شفق نے اس ناول میں کئی ایسے کرداروں کے حوالے سے اس نفرتی رویے کو رد کیا ہے۔ یہ ناول بلا شبہ ایک حیران کن تحریر ہے۔
The Architect’s Apprentice ، الف شفق کا یہ ناول ۱۵۴۶ سے ۱۶۳۲ تک کی سلطنت عثمانیہ کے عہد کی ایک جھلکی ہے۔ اسکی کہانی ایک خطاب یافتہ معمار سنان اور اسکے شاگرد شاہجہان کے بارے میں ہے۔ شفق کے اکثر کردار معاشرے کے غیر اہم افراد ہوتے ہیں جو امرا ء، روساء اور مذکر مونث کی تخصیص کے حامل لوگوں کے زیر نگیں رہتے ہیں۔ شفق کے کردار عثمانی محلات کے ہجم دار، جادوئی، خفیہ راستوں، میدان جنگ ، حرم میں اسطرح سے گھومتے پھرتے ہیں کہ پڑہنے والا ان کو اپنی نظر کے سامنے محسوس کرتا ہے۔ اگرچہ کہانی کا پلاٹ کچھ کمزور لگتا ہے لیکن سسپنس لئے چھوٹے چھوٹے واقعات کہانی کی رفتار بڑھا دیتے ہیں۔ شفق کا استمبول ایک چنچل شہر ہے، زندہ اور جاندار ، جہاں توہم پرستی کا راج ہے اور لوگوں کی شہرتیں دربار تک پہنچتی ہیں اور اثر رکھتی ہیں۔ عظیم معمار سنان کا اپنے شاگردوں کو پہلا سبق ’’ کسی پل کو گرانا، پل بنانے سے کہیں زیادہ آسان کام ہے ‘‘ عثمانی فن تعمیر کا بنیادی اصول لگتا ہے۔
میں نے بھی حسبِ توفیق اور باعثِ دستیابی الف شفق کے کچھ ناول مطالعہ کئے۔ ناول Forty Rules of Loveکسی بھی قسم کے تھرل کی غیر موجودگی کے باوجود بہت کم وقت میں بہت زیادہ پڑھا جانے والا ناول ہے۔ صرف ترکی میں اس ناول کی ۶ لاکھ کاپیاں خریدی گئیں اور اسے فرانس نے سپیشل لٹریچر ایوارڈ دیا۔ مرتبے اور ثقافتی نمود کی نفی کرتا ہوا یہ ناول سترھویں صدی کی ممتاز شخصیات، مولانا روم اور شمس آف تبریز کے بارے میں ہے۔ (شمس آف تبریز اور ملتان والے شمس تبریز الگ الگ روحانی شخصیات ہیں ) شمس آف تبریز ایک فقیرمنش ، بے گھر عالم تھا جو قرآنِ پاک کی تشریح محبت اور عفو کے عنوان سے کرتا تھا ۔ اس وقت کے خود مقرر کردہ محافظ دین اسکی تشریحات کو ناپسند کرتے تھے۔رومی سے اسکی ملاقات، گویا اسکا مقدر تھی۔دونوں بزرگوں کا یہی خیال ہے کہ انکی ملاقات میں واقعی تقدیر کا ہاتھ تھا۔ اس ناول میں کہانی زیادہ تر شمس کی زبانی بیان کی گئی ہے۔ شمس کی سیلانی طبیعت انہیں بغداد کے شہر کونیا میں کھینچ لائی جہاں رومی پہلے ہی سے ایک جید مقرر اور عالمِ دین مانے جاچکے تھے۔ الف شفق نے بہت خوبصورتی اور چابک دستی سے قرونِ وسطی کے ترکی کو جگایا ہے۔ اس میں اسکے کردار درویش، عام لوگ، گناہ کار، بھکاری، پیروکار اور بیسوائیں ہیں جو زبان رکھتے ہیں۔ رومی کے اپنے بیٹے اور بیوی بھی بولنے کا حق رکھتے ہیں۔ جوں جوں رومی اور شمس کی دوستی گہری ہوتی جاتی ہے گھر کے افراد الگ تھلگ محسوس کرنے لگتے ہیں۔ اس ناول میں بس یہی کرادر نہیں۔ ایلا اور ۴۰ یہودی بیویاں ہیں۔ ایلا ، خاندان، تحفظ اور پر عیش زندگی کی مالک ہونے کے باوجود اپنے شوہر، اپنی زندگی حتی کہ خود اپنے آپ سے بیزار ہے۔ وہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر ایک اشاعتی ادارے میں نوکری کرتی ہے جہاں وہ مسودے پڑھتی ہے۔یہیں شمس اور رومی کے حوالے سے لکھے ایک ناول کا مسودہ اسکی نظر سے گزرتا ہے۔ یہی وہ مسودہ ہے جو اس ناول کی بنیاد ہے۔ ناول میں دو الگ الگ کہانیاں ہیں جن کو آپسمیں جوڑا گیا ہے لیکن یہ بنت اتنی بھاری بھرکم بن گئی ہے کہ باقی کے ناول کو ۔۔۔۔۔۔کر دیا ہے۔یہ ناول ، محبت، ماضی، حال، روحانی اور دنیاوی معاملات کو شمس آف تبریز اور رومی کی روحانیات کے آئینے میں عکس کرتا ہے۔ وہ لوگ جو زندگی کی حقیقت اور اسمین پوشیدہ رموز کی تلاش میں ہیں، انکو یہ ناول بے حد پسند آئے گا۔
The Bastard of Istanbul
الف شفق کا یہ چھٹا ترکی ناول ہے اور انگریزی میں دوسرا۔ یہ دو خاندانوں کی کہانی ہے ۔ ایک ترک خاندان جو استنبول میں رہتا ہے اور دوسرا آرمینائی جو سان فرانسسکو میں ہے۔ چونکہ الف شفق بذاتِ خود ایک پر جوش feminist ہے اسلئے اس ناول میں پر جوش اور ناقابل گمان عورتوں کے کرداروں کی بہتات ہے اور پورے ناول میں صرف ایک مرد کردار ہے اور وہ بھی کردار کم اور سمبل زیادہ ہے۔ شروع ہی سے اس کردار کا ذکر ادھر ادھر ملتا تو ہے لیکن اسکی کوئی حقیقی اہمیت نظر نہیں آتی۔ اس کہانی میں مصنفہ، اپنے ملک ترکی کے متشدد ماضی کو واضح کرتی ہے اور ۱۹۱۵ میں آرمینیوں پر ترکوں کے ظلم و ستم کا بیان کرتی ہے۔ روز ایک امریکی خاتون ہے جو اپنے آرمینی شوہر کو طلاق دے کر ایک ترک سے شادی کرتی ہے اور اس بات کا حض لینا چاہتی ہے کہ اسکی پہلے شوہر سے بیٹی آرمانوش کو اب ترک خاندان پالے گا۔ آرمانوش اپنے آپ کو امریکی ماں، ایریزونا میں ترک سوتیلے دادا، اور سان فرانسسکو میں آرمینائی باپ اور نانی کے درمیان پاتی ہے اور ان دونوں خاندانوں میں یگانگت کی کوشش کرتی ہے۔ الف شفق نے یہاں ان آرمینیوں کو ترک دشمن دکھایا ہے اور وہ اپنی آرمنوش کو ہر قسم کا تحفظ دینا چاہتے ہیں۔آرمونوش ، آرمینین، امریکن چیٹ گروپ کے ذریعے اپنی آرمینائی جڑوں کی تلاش میں ہے اور ہر قسم کے بحث مباحثے میں حصہ لیتی ہے جن میں آرمینیوں کے قتلِ عام کا تذکرہ بھی ہوتا ہے۔ یہاں اسے اپنے سوالوں کے درست جواب نہیں ملتے تو ایک دن وہ ماں باپ کو بتائے بغیر استنبول روانہ ہو جاتی ہے۔ استنبول پہنچ کر وہ اور زیادہ پریشان ہوتی ہے کہ اس خاندان کی عورتیں اسکی سمجھ سے بالا تر ہیں۔ ایک پڑ نانی جو یاداشت کھو چکی ہے، ایک ناراض ناراض الگ تھلگ نانی، ایک بیٹی جو اپنے آپ کو۔۔۔۔۔سمجھتی ہے، دوسری بیٹی ایک سکول ٹیچر، تیسر ی بیٹی اپنی تصوراتی دنیا میں مگن اور سب سے چھوٹی، جنگجو اور ایک ٹیٹو پارلر کی مالک۔ اسی کی ایک حرامی بیٹی آسیہ۔ جلد ہی آسیہ اور آرمونوش کی گہری دوستی ہو جاتی ہے۔ Bastard اسی آسیہ کی کہانی ہے اور ناول کے آخر میں قاری پر ایک حیران کن انکشاف ہوتا ہے اور الف شفق واحد مردانہ کردار مصطفی کو آرمینایوں کے قتلِ عام کا سمبل بناتی ہے۔ اس ناول کی بنا پر مصنفہ پر مقدمہ بھی چلایا گیا لیکن پھر عدم دلچسپی کی بنا پر خارج کر دیا گیا۔ یہ ناول قاری کوشفق کی دیگر تصانیف پڑہنے پر ابھارتا ہےَ ۔ اسکی تحریر میں تاریخی واقعات کو کمال مہارت سے قاری تک پہنچایا گیا ہے۔ سسپنس اور اپنے کرداروں کے ساتھ بونے میں شفق کو کمال حاصل ہے۔ صوفیا ء کا ذکر اور انکا مباحثہ و مناظرہ پڑہنے سے تعلق رکھتا ہے۔
The Flea Palace ترکی میں لکھا گیا لیکن اسکا انگریزی ترجمہ بھی کمال کا ہے۔ یہ ناول شہر استنمبول کی شان، شدت اور تنوع کو ظاہر کرتا ہے۔ کہانی بون بون پیلیس میں رہنے والے لوگوں پر مشتمل ہے اور اسی ایک عمارت اور اسکے مکینوں کا بیان کرتے ہوئے شفق نے بتایا ہے کہ ترکی کس طرح مغربی یورپ کے ملکوں سے الگ تہذیب رکھتا ہے۔ اس ناول کے ایک ایک صفحے سے شفق کی استنمبول کے لئے محبت آشکار ہے۔
The Black Milkشفق کا یہ ناول ایک تجربہ ہے۔ ایک خاتون مصنف کا ماں بننے کا تجربہ۔ وہ اس وقت اپنے اندر کسی اور ہی عورت کا وجود محسوس کرتی ہے اور اسے ایک ڈیپریشن کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ شادی کے بعد ماں بننے کا بمقابلہ مصنف ہونے کے۔ وہ کئی ایسی خاتون لکھاریوں کا ذکر کرتی ہے جو اس ڈیپریشن میں مبتلا رہیں۔ شفق کا خیال ہے کہ لکھاری باطنی رویہ introvert رکھتا ہے اور ایک ماں غیر باطنی۔ extrovert۔ اسکے مطابق ناول نگار کے ذہن میں کئی چھوٹے چھوٹے کمرے ہوتے ہیں جن کو وہ لکھتے وقت مقفل کر دیتا ہے اور اپنے تمام راز لوگوں کی آنکھوں سے چھپائے رکھتا ہے جبکہ ایک ماں کے گھر کے تمام دروازے ہر موسم اور دن رات کھلے ہوتے ہیں اور بچے جب چاہیں اندر باہر آ جا سکتے ہیں۔ بہر حال اسکا یہ احساس ناول کے اختتام پر قابو میں آ جاتا ہے۔
The Gaze شفق کا یہ ناول بے حد دلچسپ ہے۔ مس فٹ افراد کے ساتھ معاشرہ جو سلوک کرتا ہے، اس ناول کی تھیم ہے۔ کہانی وکٹوریہ دور کے ایک ناظم تھیٹر کرمت آفندی کی ہے جو دیگر کرداروں کی کچھڑی میں الگ سا دکھائی دیتا ہے۔ایسا معاشرہ جہاں ظاہری نمود و نمایش اور دکھاوا ہی سب کچھ ہو، وہاں ایک عجیب الخلقت کا ہونا کیسے برداشت کیا جا سکتا ہے۔ شفق نے اس ناول میں کئی ایسے کرداروں کے حوالے سے اس نفرتی رویے کو رد کیا ہے۔ یہ ناول بلا شبہ ایک حیران کن تحریر ہے۔
The Architect’s Apprentice ، الف شفق کا یہ ناول ۱۵۴۶ سے ۱۶۳۲ تک کی سلطنت عثمانیہ کے عہد کی ایک جھلکی ہے۔ اسکی کہانی ایک خطاب یافتہ معمار سنان اور اسکے شاگرد شاہجہان کے بارے میں ہے۔ شفق کے اکثر کردار معاشرے کے غیر اہم افراد ہوتے ہیں جو امرا ء، روساء اور مذکر مونث کی تخصیص کے حامل لوگوں کے زیر نگیں رہتے ہیں۔ شفق کے کردار عثمانی محلات کے ہجم دار، جادوئی، خفیہ راستوں، میدان جنگ ، حرم میں اسطرح سے گھومتے پھرتے ہیں کہ پڑہنے والا ان کو اپنی نظر کے سامنے محسوس کرتا ہے۔ اگرچہ کہانی کا پلاٹ کچھ کمزور لگتا ہے لیکن سسپنس لئے چھوٹے چھوٹے واقعات کہانی کی رفتار بڑھا دیتے ہیں۔ شفق کا استمبول ایک چنچل شہر ہے، زندہ اور جاندار ، جہاں توہم پرستی کا راج ہے اور لوگوں کی شہرتیں دربار تک پہنچتی ہیں اور اثر رکھتی ہیں۔ عظیم معمار سنان کا اپنے شاگردوں کو پہلا سبق ’’ کسی پل کو گرانا، پل بنانے سے کہیں زیادہ آسان کام ہے ‘‘ عثمانی فن تعمیر کا بنیادی اصول لگتا ہے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں