جمعہ، 18 ستمبر، 2015

تیز دھوپ میں کھلا گلاب


راشد جاوید احمد

کتا زور زور سے بھونک رہا تھا۔میں نے بہت کوشش کی کہ ارسطو کے نظریہ حکومت کا بغور مطالعہ کر سکوں لیکن شور بڑھتا ہی جا رہا تھا۔ میں نے مٹھو سے کہا کہ جا کر معلوم کرے کہ کیا مسئلہ ہے۔ واپس آ کر اسنے مجھے بتایا کہ سڑک پر ایک عورت بکریاں چرا رہی ہے اور بکریاں ہمارے گھر کے باہر والے لان میں گھس آئی ہیں۔ مجھے باغبانی سے از حد دلچسپی ہے اور جب سے ہم دوسرے شہر میں اپنا بڑا گھر چھوڑ کر اس شہر میں آئے ہیں میں اسی چھوٹے سے لان میں اپنی دلچسپی کا سامان پیدا کر لیتا ہوں۔ نئی کالونیوں اور جدید بستیوں میں دس مرلے کے گھروں میں اتنی گنجایش نہیں ہوتی کہ میرے جیسا شخص اپنا شوق بطریق احسن پورا کر سکے۔ میرے ایک دوست نے باغبانی سے میری دلچسپی دیکھ کر میرا نام نباتاتی مریض رکھ چھوڑا ہے۔
 
اگرچہ مٹھو نے لان میں بکریوں کے آنے کا جو نقشہ پیش کیا تھا وہ میرے غصے کو آخری درجے تک پہنچانے کے لئے کافی تھا لیکن ارسطو کا نظریہ حکومت بھی غیر دلچسپ نہیں تھا۔ کتاب میں بک مارک رکھ کر میں کمرے سے باہر ٹیرس پر آ گیا۔ بکریاں اگرچہ اب لان میں نہیں تھیں تاہم وہ قریب ہی تھیں اور ایک بار پھر پودوں پر حملہ آور ہو سکتی تھیں۔ میں نے ذرا غور سے دیکھا تو میرے پور چو لاکا کے چار پودے تو بالکل غائب تھے۔ ٹیرس کے جنگلے سے ہی میں اس عورت پر برس پڑا۔ وہ اپنے اوڈ لہجے میں نہ جانے کیا بڑ بڑا رہی تھی جو کتے کے مسلسل بھونکنے کی وجہ سے سنائی نہیں دے رہا تھا۔ آخر مجھے نیچے آنا ہی پڑا۔ عورت پھٹے پرانے نیلے رنگ کے پیوند لگے کپڑوں میں ملبوس ، ننگے سر ننگے پاوں زمین پر متھلا مارے بیٹھی تھی۔ دھوپ کی حدت سے اسکا رنگ سیاحی مائل سرخ تھا۔ اسکے گلے میں گلٹ کا بنا ہوا بھدا سا نیکلس، کانوں میں پیلے رنگ کے جھمکے اور ناک میں اسی رنگ کی بلاقی تھی۔ اسکی کلایؤں کی ہڈیاں مضبوط تھیں اور اس امر کی گواہ تھیں کہ وہ زیر تعمیر عمارتوں میں اینٹیں ڈھونے اور بیلچہ چلانے کا کام کرتی ہے۔ مجھے اپنے قیمتی پودوں کے ضایع ہونے کا اتنا رنج تھا کہ میں اپنے آپ پر قابو نہ پا سکا
’’ کچھ معلوم ہے تمہیں۔۔۔؟ تم نے میرا کتنا نقصان کر دیا ہے۔۔۔‘‘
’’ کیا ہوا، ذرا بکریوں نے منہ مار لیا ہے۔۔۔‘‘
’’ یہ ذرا ہے، پورے چار پودے غائب ہیں اور تم کہہ رہی ہو ذرا۔۔۔‘‘
’’ کوئی بات نہیں صاب، اللہ اور دے گا۔۔آخر بے زبان بکریوں نے بھی تو کچھ کھانا ہے نا۔‘‘
اسکی یہ منطق سن کر تو میں اور آگ بگولا ہو گیا۔
’’ بکریوں نے کھانا ہے تو میں نے کیا ٹھیکہ لے رکھا ہے، ان کا دودھ تم پیتی ہو، مجھے کوئی حصہ تو نہیں ملتا۔۔۔‘‘
’’ ایمان سے میری نہیں ہیں ، مجھے تو ان کو چرانے کے روز دس روپے ملتے ہیں ۔۔۔‘‘
’’ مجھے نہیں معلوم دس ملتے ہیں کہ بیس، تم نے میرا چارسو کا نقصان کر دیا ہے اور اوپر سے باتیں الگ بنا رہی ہو۔۔۔اگر میں ان پر اپنا کتا چھوڑ دیتا تو بکریوں سمیت تم کو بھی کھا جاتا۔۔‘‘
’’ ہان ہاں چھوڑ دو ہم پر کتے، اب یہی کثر تو رہ گئی ہے، تم بھرے پیٹ والے ہو، پیسے والے ہو، تمام خالی جگہیں خرید کر تم نے گھر بنا لئے ہیں ۔۔۔اب ہم پر کتے ہی چھوڑو گے۔۔ذرا روٹی کا آسرا ہے، وہ بھی چھین لو گے۔۔۔؟‘
بک بک کرتی وہ اٹھی اور پتلی چھڑی سے ہانکا کرتی بکریوں کو ہماری گلی سے باہر لے گئی۔ میں اس وقت بہت غصے میں تھا۔ دراصل میں نے بڑی محنت سے پہلے پنیری تیار کی، پھر کافی انتظار کے بعد انہیں الگ الگ کیاریوں میں لگایا تھا اور ابھی ان پر پھول آئے دو دن ہی ہوئے تھے کہ بکریوں نے دن کے وقت شب خون مار دیا تھا۔ میں نے لان کا جائزہ لیا تو وہاں صرف یہی چار پودے غائب نہیں تھے بلکہ بکریوں کی یلغار سے گارڈینیا کی باڑھ بھی ایک جگہ سے ٹوٹ چکی تھی ۔ البتہ گِل نافرمان کا پودا ڈرا ٹیڑھا ہوا تھا۔ میں نے فورا کچھ اینتٰن چن کر اسکے گرد رکھ دیں۔
 
سہہ پہر کی چائے تیار تھی اور میری بیوی مجھے چائے کے لئے آوازی دے رہی تھی۔ میں نے ہاتھ دھوئے اور اوپر جا کر چائے پینے لگا۔ ہم میاں بیوی اس سلسے میں بڑے خوش قسمت ہیں کہ ایک دوسرے کا موڈ پہچانتے ہیں۔ میرا غصہ کم کرنے کے لئے اسنے ادھر ادھر کی باتیں چھیڑ دیں اور میں بھی کتاب کی ورق گردانی کرنے لگا۔ میری نظریں تو کتاب پر تھیں لیکن میرا ذہن ضایع ہوئے پودوں اور عورت کی باتوں میں اٹکا تھا۔ مجھے وہ عورت، اسکی مضبوط کلائیاں، اسکا مادر زاد ننگا بچہ، کڑتن سے بھرے تلخ الفاظ ، رہ رہ کے یاد آ رہے تھے۔۔موٹے پیٹ والے۔۔۔پیسے والے۔۔۔بیوقوف عورت اتنا بھی نہیں جانتی کہ یہ گھر میرا نہیں بلکہ کرائے کا ہے اور ہم دونوں محنت مشقت کی زندگی گزار رہے ہیں۔ مجھے اسکی بے وقوفی اور سادگی پر ترس آنے لگا۔ پھر مجھے دیگر مزدور عورتوں کے ساتھ ساتھ نوکری پیشہ خواتین کا خیال آیا۔ مجھے اپنے دفتر میں کام کرنے والی خواتین کا خیال آیا کہ میں ان کا ہمیشہ احترام کرتا ہوں۔ بات بے بات شکریہ ادا کرنا، خوش مزاجی سے پیش آنا، انکے نقطۂ نظر کا حتی المکان احترام کرنا۔۔۔آخر میں یہ سب کیوں کرتا ہوں۔۔۔کیا میں دفتر میں ایک خول چڑھائے رکھتا ہوں ۔۔نہیں، ہر گز نہیں، میں اس بات پر پوری طرح یقین رکھتا ہوں کہ اس میل ڈومی نیٹڈ معاشرے میں عورت، مرد سے کہیں زیادہ جبر کا شکار ہے۔ میں نے عورت کو ہمیشہ اپنے جیسا انسان ہی جانا ہے اور اسے جنس یا کم تر جنس کے حوالے سے کبھی نہیں دیکھا۔ میں اپنی بیوی کی ہر رائے کا احترام کرتا ہوں اور ایک رفیق کی مانند اسکی مدد کرتا ہوں۔ گھر کے کاموں میں اسکا ہاتھ بٹاتا ہوں لیکن اس بکریاں چرانے والی عورت کی ذرا سی لا پرواہی پر میں اتنا سیخ پا کیوں ہو گیا۔ کیا یہ جعلی پن ہے ؟ سوچوں تو کیا میں اکیلا اتنے بڑے ریوڑ کو قابو کر سکتا ہوں۔ کیا میں اس عورت کی جگہ اپنی بیوی، بہن، کولیگ یا دوست کو تصور کر سکتا ہوں ؟ میرے ذہن کی رو اسی طرف ہے اور ارسطو کا نظریہ حکومت وہیں رہ گیا ہے۔ میں نے کتاب بند کر دی ہے اور سگریٹ سلگا لیا ہے۔ اس عورت کے ساتھ میرا مکالمہ مجھے بار بار یاد آ رہا ہے۔ میرا ضمیر ملامت کر رہا ہے۔ میرا خیال ہے کہ مجھ سے زیادتی ہو گئی ہے۔ میرا خیال ہے کہ مجھے اس سے معافی مانگنا چاہئے۔ ہاں کل، یا اگلے چھٹی کے روز یا جب وہ نظر آئے۔
سہہ پہر کا وقت ہے۔ چھٹی کا دن ہے۔ کتا زور زور سے بھونک رہا ہے۔ میں نیچے آتا ہوں، گیٹ کھولتا ہوں۔۔۔وہی عورت۔۔۔میں اپنے آپ میں ہمت نہیں پاتا۔۔۔میں لان کے ایک کونے میں کھڑا ہو جاتا ہوں جہاں سے میرا خیال ہے کہ بکریاں آ سکتی ہیں، بس میں انہیں روک لوں گا۔
 
’’ فکر مت کرو بابو۔۔۔میرا دھیان ہے۔۔‘‘ عورت اوڈ لہجے میں کہتی ہے اور کوڑے کرکٹ سے بھری زمین پر متھلا مار کر بیٹھ جاتی ہے۔ اسکی گود میں وہی بچہ ہے اور وہ بڑے پیار سے اپنے مہندی لگے ہاتھوں سے اسکے سر سے جوئیں نکال رہی ہے۔ میں حیران و ششدر وہیں کھڑا رہ جاتا ہوں۔


1 تبصرہ:

Unknown کہا...

Tanveer Qazi
یہ اچھی بات ھے کہ آپ اپنی کہانیون کا RAW MATERIAL افتادگانِ خاک سے لیتے ہیں۔۔یہ مٹیو مٹی CLASS LESS ہی اصلی لوگ ہٰیں۔۔جو اپنا مہاندرا معاشرے کے مصنوعی پن میں گنوا بیتھے ہیں۔۔تیز دھوپ مین کھلا گلاب تمازت کی مسافت سے کبھی چھاوں میں آ سکے گا۔۔بکریوں نے دن کے وتت شب خون مار دیا تھا۔۔اچھی لائن ھے۔۔یہ ایک اچھی کہانی ھے۔۔آپ کی کہانی کی طرف واپسی لاجواب ھے۔۔۔۔۔۔مجھے صرف یہ بتا دیں ان لوگوں کو ان کی زمین کب واپس کرنی ھے۔۔۔۔۔۔